منگل، 31 اکتوبر، 2017

کنیر , پنجابی باغوں کا حسن

لمبے گہرے سبز پتوں اور ٹہنیوں کے سروں پر سفید گلابی سرخ خوشنما پھولوں کے مالک سدا بہار اس پودے کا نام کنیرہے، پنجاب کا کوئی باغ یا پارک اس کے بنا ادھورا ہے ،اس کااصل وطن موریطانیہ،مراکو،پرتگال ہے جہاں سے یہ بحیرہ روم کے علاقے سے ہوتا ہوا امریکہ کے مشرقی ساحل، ایشیا اور جنوبی چین تک کو اپنا گھر بنا چکا ہے۔کیلیفورنیا کے ہائی ویز اور سڑکوں کے کنارے یہ پودے اپنی سخت جانی کی وجہ سے لگائے گئے ہیں جن کی اندازاً تعداد 25ملین سے زیادہ ہے یہ کم پانی اور تیز دھوپ میں بھی ساری گرمیاں پھول دیتے ہیں۔

کنیر اپنی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ طبی لحاظ سے بھی بے مثال ہے،کنیر بنیادی طور پر ایک زہریلا پودہ ہے،بے احتیاطی سے استعمال نقصان دے سکتا ہے اس کا زہریلا مواد زیادہ مقدار میں کھائے جانے پر نظام ہضم دل کے افعال اورنروس سسٹم پر اثر انداز ہوتا ہے،اس وجہ سے مستند حکیم ہی اسے ادویہ میں استعمال کرے تو بہتر ہے۔

۔ ذائقہ میں بد مزہ کڑوے پھول ورموں کو تحلیل کرنے جوڑوں کے درد کمر درد شیاٹیکا میں بے حد مفید ہیں،پھولوں کا رس چہرہ کے نکھار کے لیے بہترین چیز ہے لیکن آنکھوں کو نقصان دے سکتا ہے احتیاط ضروری ہے۔سفید پھولوں سے بنی نسوار پرانے نزلہ اور اس سے بننے والی دماغی رطوبتوں کے علاج میں نہائت مفید ہے۔اس کی مسواک کڑوی ضرور ہے لیکن پائیوریا جیسے مرض میں اسے اکثیر آعظم مانا گیا ہے۔اتنی خوبیوں کے حامل اس پودے کا حق بنتا ہے کہ اسے غیر ملکی فضول بلکہ نقصان دہ پودوں کی جگہ سڑکوں کے کنارے،شاہراہوں کی سبز پٹیوں، پارکوں اور باغوں میں فروغ دیا جائے۔۔
اس تحریر اور تحقیق کے خالق محترم طارق طفیل ہیں جنہیں پودوں سے انتہائی محبت ہے ، ایگری ٹورزم آف پاکستان سے بھی وابستہ ہیں ۔ طارق طفیل سے ان کے فیس بک پیج سے رابطہ کیا جاسکتا ہے

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔